Tranding
Thu, 03 Jul 2025 09:47 AM
धार्मिक / Jul 02, 2025

نیپال کے مخلص اہل علم و صاحب فراست علماء کے نام۔

روتاہٹ، نیپال

نیپال میں تحفظ ختم نبوت کی خدمات عرصہ پینتیس سال سے جاری ہیں اور نیپال کی مجلس کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کی زیر نگرانی ایک باوقار اور منتخب اراکین پر مشتمل ذمہ دار مجلس ہے۔ اسی لئے جب بھی دارالعلوم دیوبند میں آل انڈیا پروگرام ہوتا ہے تو نیپال کی مجلس کے ذمہ داران کو بھی دعوت نامہ آتا ہے۔ اور اراکین مجلس یا صدر سکریٹری کا انتخاب کبھی بھی کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کی جانب سےنہیں کیا جاتا ہے۔ یہ بات اس کی پوری تاریخ اور معمول سے واضح ہے۔ جبکہ ضابطے میں بھی یہی بات ہےجیساکہ بارہا اس کا اظہار حضرت قاری محمد عثمان صاحب رح سے لے کر اب تک حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپور ی صاحب مدظلہ العالی بھی فرماتے رہے ہیں ۔ الحمدللہ اس قدیم اور تاریخی مجلس کے اراکین و ممبران و سرپرست اعلیٰ حضرات بوقت ضرورت اپنا صدر یا سکریٹری منتخب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس مجلس نے ہی باطل فرقوں کو نیپال میں لگام کسا ہے اور دارالعلوم دیوبند کی نگرانی میں سارا کام انجام دے کر اس کے سر کو فخر سے بلند کیا ہے کسی باطل جماعت یا گروہ یا افراد سے سمجھوتا نہیں کیا بلکہ حکمت عملی سے کسی سے ناخوشگوار ٹکراؤ بھی پیدا نہیں ہونے دیا لیکن ہمیشہ علمائے دیوبند اور اکابر دارالعلوم دیوبند کو آگے رکھا ۔ ان کے لئے قربانیاں دی ہیں ۔

القصہ مختصر:

(1): یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس تاریخی تناظرمیں چالبازی اور سیاست کے تحت ہی مولانا شفیق الرحمن صاحب کو صدر بنوایا گیا ہے جسکا اقرار خود ذمہ داران جمعیت نے کیا ہے

 ذرا مخلص اہل علم غور کریں ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ اب ناموس رسالت کے تحفظ کے سلسلہ میں ذاتی مفاد اور سیاست کھیلی جارہی ہے۔ 

(2):جمیعت علما کے لیٹر پیڈ پر جو تحریر گشت کرائ جارہی ہے اس میں گرچہ مولوی شفیق الرحمن کا نام نہیں لیا گیا ہے لیکن اس تحریر کے ساتھ زبانی طور پر جمیعت کے ذمہ داران کی طرف سے مولوی شفیق الرحمن کا نام دارالعلوم کو دیا گیا ہے اور دہلی جمیعت علماء کے ایک بڑے ذمہ دار کے ذریعے کل ہند مجلس کے ذمہ داران کو کچھ کا کچھ باور کراکے دیا گیا ہے جسکا اقرار خود ذمہ داران جمعیت نے کیا ہے۔ یہ بھانڈا دہلی دفتر جمیعت علما سے بھی پھوٹ چکا ہے اور یہاں سے بھی ۔ 

سوال تو یہ ہے کہ جس صدارت کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں اس کی حقیقت کے انکشاف میں کیا اب بھی کوئ کسر باقی رہ جاتی ہے؟ 

(3): پھر اس جمیعت کے لیٹر پیڈ پر آپ غور کیوں نہیں کرتے کہ درخواست دہندہ وہ ہے جو تحفظ ختم نبوت نیپال کا رکن تک نہیں ،

اسی طرح نام واضح نہ کرکے جس کو صدر بنوانے کی سازش رچی گئ وہ بھی تحفظ ختم نبوت نیپال کا رکن تک نہیں ۔ 

نیز نیپال مجلس تحفظ ختم نبوت کے کسی رکن یا ذمہ دار کو اس کی خبر تک نہیں ۔

 جبکہ نیپال کی مجلس ایک زمانہ سے خود کفیل مجلس ہے اور منتخب افراد کی باوقار باڈی کا نام ہے ۔ 

 یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمیعت علماء کے ذمہ داران ایسے فرد کو صدارت کی کرسی ایک دن میں دے دیں گے جو کبھی جمیعت کا ممبر تک نہ رہا ہو اور اس کے بارےمیں سفارش بھی ان لوگوں کی ہو جو کبھی جمیعت کے ممبر تک نہ رہے ہوں ؟

بہر حال آنکھیں کھولنے کے لئے یہ مثال کافی ہےکہ تحفظ ختم نبوت جیسے عظیم پاکیزہ کام کے لئے کیسی گھناؤنی سیاست کھیلی گئی ہے۔ کیا سیاست کا یہی میدان باقی رہ گیا ہے۔ 

(4):اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دارالعلوم دیوبند کو نیپال کی صورت حال کا علم نہیں ہے، ورنہ یہ فیصلہ ہرگز نہ لیا جاتا، مولانا وکیل الحسینی نے پینتیس سال تحفظ ختم نبوت کی خدمت میں لگادیا جسکا اقرار خود مجلس کے اصول و ضوابط کے ماہر اور عملی امین و استاذ حضرت مولانا شاہ عالم صاحب کرتے ہیں، 

عجیب بات ہے کہ نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کو آپ کے بقول تحفظ کے جنرل سیکرٹری مولانا وکیل الحسینی بلاتے ہیں اور کامیاب پروگرام ہوتا ہے اور اسی ضلع میں تحفظ کے ہیڈ آفس کی بنیاد بھی پڑتی ہے اور صدر مولانا شفیق الرحمن صاحب کو پروگرام اور سنگ بنیاد کا علم بھی نہیں ہوتا، 

واضح بات ہے کہ صدر کے اصل حقدار مولانا وکیل الحسینی صاحب ہی ہیں، مولانا شفیق الرحمن صاحب کی تحفظ کے سلسلہ میں نہ تو پہلے کوئی کارکردگی تھی اور نہ ہی صدر بنوالینےکے بعد کوئی کارکردگی سامنے آئی ہے، ایسے میں ایسی شخصیت کو صدر ماننے میں خود دارالعلوم اور مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند کے وقار کو مجروح کرنا ہے، چالبازی اور سیاست کسی اور شعبہ میں کریں، خدا را تحفظ کو سیاست سے دور رکھیں ورنہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اسکا جواب دینا ہوگا۔

(5):آپ لوگ یہ بھی تو دیکھیں کہ مجلس تحفظ ختم نبوت نیپال کا مستقل لیٹر پیڈ ہے جماعت ہے۔اس کے ممبر و سرپرست ہیں لیکن صدر بنوانے کی سفارش دارالعلوم دیوبند میں جمیعت علماء کے لیٹر پیڈ پر بھیجی گئی ہے۔ جبکہ دونوں تنظیموں کی باڈی الگ الگ ہے ۔ یعنی غیر متعلق افراد دوسرے باڈی میں خفیہ گھس پیٹھ بناکر کام انجام دے رہے ہیں۔ انتشار و اختلاف کا دہانہ اور سر چشمہ یہاں سے کھل رہا ہے یا مولانا وکیل الحسینی صاحب مدظلہ العالی کی جانب سے ۔ فیصلہ آپ کریں ۔ 

پھرحیرت تو یہ بھی ہے کہ جمیعت علماء نیپال کے لیٹر پیڈ پر بھی جو صدر بنا نے کی درخواست دی گئ ہے اس میں باوقار اور ذمہ دار عالم کو بنانے کی سفارش کی گئ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا مولانا شفیق الرحمن صاحب میں یہ خوبیاں ہیں؟ اور ان کی صدارت کے علم بردار اکابر دارالعلوم دیوبند کے سامنے اس کو ثابت کریں گے ۔ ؟ 

یاد رکھئے کہ اگر یہ قضیہ نیپال میں یا دارالعلوم دیوبند میں چھڑگیا تو انتہائی ناخوشگوار واقعے سامنے آئیں گے اور وہ عوام کے بھی سامنے پیش ہوں گے ۔ ذرا اس کا بھی سوشل میڈیائ بہادروں کو خیال رہے۔ 

بات یہ ہے اس سلسلے میں ماحول پراگندہ کرنے کےلئے زیادہ وہ لوگ سوشل میڈیا پر اچھل رہے ہیں اور بول رہے ہیں جن کو حقیقت حال سرے سے معلوم ہی نہیں۔ اور نہ وہ قضیہ نامرضیہ سے متعلق ہیں ۔یا پھر وہ لوگ میدان سنبھالے ہوئے ہیں جو موجودہ سیاسی سازش کا شکار ہیں اور اپنے لئے متوقع منصبی مفادات کے پجاری ہیں ۔ نہ پہلے سے ان کا کائ کام ہے نہ مستقبل میں کام کی اہلیت رکھتے ہیں ۔

مجلس اور جمیعت علماء کے مخلص احباب و اکابر کو یاد رہے کہ ذمہ داران دارالعلوم دیوبند کو اس حقیقت سے باخبر کرایا گیا ہے اور دس بارہ  نکات پر مشتمل مولانا الحسینی صاحب دامت برکاتہم نے حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا مفتی محمد راشد صاحب اور حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپور ی صاحب مدظلہم کو تحریر براہ راست جاکر دی ہے ۔اب اگر ضرورت پڑی تو مجلس شوریٰ اور حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کو بھی دی جائے گی ۔اگر موجود ہ سیاست زدہ لوگوں میں دم خم ہے تو دارالعلوم دیوبند سے وہ تحریر منگواکر نیپال کے عوام و خواص میں پیش کردیں اور پھر اپنی صدارت کا حشر سامانی آنکھوں سے دیکھیں ۔ پھر وہ چہرے بھی میدان میں گھسیٹے جائیں گے جو خفیہ اس سازش کا حصہ بنے ہیں ۔

الحمدللہ حضرت مولانا وکیل الحسینی صاحب مدظلہ اور ان کی مجلسِ شوریٰ کے رکن ورفقا ایک باوزن و باوقار حقیقت پر مبنی کردار رکھتے ہیں اسلئے ان کو ضرورت نہیں ہے کہ وہ اس تحریر کو عام کریں بلکہ جو جواب دار العلوم دیوبند نے ان کی تسلی اور کام کرتے رہنے کے کے لئے دیا ہے وہ بھی معقول ہے لیکن اس کو بھی عام کرنا خلفشار کے خوف سے مناسب نہیں جانا گیا ۔

بات بات میں سوال قائم کرنے اور جواب مانگنے والوں کو جرآت وہمت ہوتو وہ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند سے رجوع کر کے دونوں تحریر حاصل کریں اور اس کو نشر کردیں اس کے نفع و نقصان کے جواب دہ وہ لوگ ہوں گے جو نشر کریں گے۔ 

مولانا وکیل الحسینی صاحب اور ان کی منتخب مجلس کے اراکین کو اس کی قطعا ضرورت نہیں۔ وہ کمیٹی کی جانب سے منتخب صدر ہیں اور ان شاءاللہ رہیں گے ۔ انتشار جنھوں نے پیدا کیا ہے اپنے پیدا کردہ انتشار کے وہ ذمہ دار ہیں ۔ مولانا الحسینی صاحب حسب معمول پہلے کی طرح کام کررہے ہیں اور وہی پہلے بھی کرتے تھے مستقبل میں بھی کریں گے ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔

 رہی بات کچھ خامیوں کی تو اس کی اصلاح مجلس کی کمیٹی کرے گی اور اصلاح ہو بھی رہی ہے۔وہ کمیٹی کے اندر کی بات ہے کمیٹی سمجھے گی سب کو اس پر لب کشائی کی ضرورت بھی نہیں اجازت بھی نہیں ۔ 

یہ وضاحت کرنا بندہ نے ضروری سمجھا تو بعض احباب کے اصرار پر اور مجلس کے اراکین کی اجازت سے کردیا ورنہ ہمیں یا ہماری مجلس کو اس کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ 

حضرت امیرختم پیر طریقت مولانا گورکھپوری صاحب مدظلہ العالی نے حالیہ سفر، مجلس تحفظ ختم نبوت نیپال کے صدر و سکریٹری اور اراکین مجلس کی دعوت پر کیا ہے ۔ بیتیا،چمپارن موتیہاری کنواں وغیرہ سے بڑی تعداد میں مستند و معتبر قابل قدر باوقار معمر علماء نے اس میں شرکت کی ہے ۔اب پہاڑ سے نیچے ترائ علاقے میں بھی مجلس تحفظ ختم نبوت نیپال کے مستقل دفتر کی بنیاد پر گئ ہے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ جلد ہی اس کی اپنی عمارت ہوگی اپنی زمین پر ہوگی ۔جنھیں کام کرنا ہے وہ اس کا حصہ و معاون بنیں بقیہ جن کے نصیب میں نہیں وہ جو سیاست کرنا چاہیں کریں ۔

راقم : يكے از خدام مجلس تحفظ ختم نبوت آل نیپال شاخ کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند

Jr. Seraj Ahmad Quraishi
2

Leave a comment

logo

Follow Us:

Flickr Photos

© Copyright All rights reserved by Bebaak Sahafi 2025. SiteMap