Tranding
Sat, 13 Dec 2025 12:35 PM
राजनीति / Nov 27, 2025

وزیرِ اعظم کے بیان پر مسلم کمیونٹی کا غصہ، ‘گمراہ کن بیان فوراً واپس لی جائے

    [ سابق وزیرِ مملکت اور آئین ساز اسمبلی کے رکن محمد زاکر حسین کے مطابق وزیرِ اعظم کا بیان "بے بنیاد، من گھڑت، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے والا" ہے]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کٹھمنڈو،  

وزیرِ اعظم سشیلہ کارکی کا ایک عوامی بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد نیپالی مسلم کمیونٹی نے سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ مکمل ویڈیو سامنے نہ آ کر صرف ‘ایڈیٹ شدہ’ معلوم ہونے والا یہ کلپ کل دن بھر سوشل میڈیا میں تیزی سے پھیلا۔ بڑے ذرائع ابلاغ نے بھی اس مواد کو نشر کیا، جس کے بعد وزیرِ اعظم کے دفتر کی خاموشی کو اس بیان کی "سرکاری حیثیت" سمجھا گیا اور اس بیان پر مسلم کمیونٹی نے شدید ناراضگی ظاہر کی۔

    سابق وزیرِ مملکت اور آئین ساز اسمبلی کے رکن محمد زاکر حسین کے مطابق وزیرِ اعظم کا بیان "بے بنیاد، من گھڑت، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے والا" ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئینی عہدے پر فائز شخص کی جانب سے کسی مذہب یا کمیونٹی کو نشانہ بنا کر غلط معلومات پیش کرنا افسوسناک اور نامناسب ہے۔

  اس کا اصل مقصد کیا تھا؟’ مسلم کمیونٹی کا سوال

بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے ملک کے حساس حالات کے دوران وزیرِ اعظم کا اس قسم کا تبصرہ کرنا بذاتِ خود مشکوک ہے۔

 مسٹر حسین کے مطابق۔

"ہندو–مسلم معاملات میں صحیح یا غلط کا فیصلہ وزیرِ اعظم کی ذمہ داری نہیں ہے۔ 

   اسلام، مسلمانوں اور خواتین سے متعلق تاریخی حقائق کو الٹ کر پیش کرنا ملک کی مذہبی رواداری کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔"

وزیرِ اعظم کا یہ اشارہ کہ ’انصاف آریہ کے پاس ہے، مسلمانوں کے پاس نہیں‘—مسلم کمیونٹی پر بلاجواز الزام ہے اور اس سے معاشرے میں غیر ضروری تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔

  ‘کس مسلمان ملک میں عورتوں کو زندہ دفن کیا جاتا ہے؟’

وزیرِ اعظم کے بیان کو تاریخی طور پر بھی غلط قرار دیتے ہوئے مسٹر حسین نے سوال اٹھایا:

"کس مسلمان ملک میں خواتین کو زندہ دفن کیا جاتا ہے؟ الٹا، جلانے، زندہ جلا کر مارنے یا ریپ کے بعد قتل کے واقعات تو ہمارے اپنے معاشرے میں بارہا دیکھے گئے ہیں۔"

        ان کے مطابق اسلام سے پہلے عرب میں رائج غیر انسانی رسومات — جیسے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، ستی پرمپرا، غلاموں پر ظلم — ان سب کا خاتمہ پیغمبر محمد ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے ہوا۔

وہ اس تاریخی حقیقت کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی مسلم حکمرانوں نے ستی پرمپرا کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

انہوں نے وزیرِ اعظم کے بیان کو "غیر علمی اور تعصب پر مبنی" قرار دیا۔

 ‘خواتین کو حقوق نہ دینے کی بات بالکل غلط ہے’

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ آج کے مسلم معاشرے میں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنے کا دعویٰ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

"عرب ممالک کے سرکاری و نجی اداروں میں خواتین کی نمایاں شرکت ہے۔ نیپال میں بھی مسلم بچیوں کی اسکول حاضری کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔"

   مذہبی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش ناقابلِ قبول

 مشٹرحسین نے مدید فرمایا کہ۔  

    "نیپال کی سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری دنیا میں ایک مثالی اقدار کے طور پر سمجھی جاتی ہے، اور اس کو کمزور کرنے والی کوئی بھی بات ناقابلِ قبول ہے۔"

آپ نے واضح کیا:

"نیپالی مسلم کمیونٹی کو ہندو یا کسی بھی دوسرے مذہب سے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارا معاشرہ باہمی احترام، بقائے باہمی اور ہم آہنگی پر قائم ہے۔

   یہ بھی ایک سوال ہے کہ 

  کابینہ میں مسلم نمائندگی کیوں نہیں؟

اگر وزیرِ اعظم کو واقعی مسلمانوں اور خواتین کے حقوق کی فکر ہے تو آئین میں شامل مسلم کمیونٹی کے افراد — مرد یا خواتین — کو کابینہ میں شامل کرنے کا سوال بھی اٹھتا ہے۔

 مسٹر حسین نے اپنے سوال میں پوچھا:

"کیا ملک میں کوئی بھی نیپالی مسلمان وزیر بننے کے لائق نہیں؟

‘گمراہ کن بیان واپس لیجیے’ — مسلم کمیونٹی کا مطالبہ

   بیان کے آخر میں مسٹر داکر حسین نے وزیرِ اعظم سشیلہ کارکی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا بیان فوراً واپس لیں اور حساس موضوعات پر ذمہ داری کے ساتھ، مطالعہ کی بنیاد پر اور حقائق کے مطابق موقف پیش کریں۔

  انہوں نے کہا کہ مسلم کمیونٹی ملک میں امن، استحکام اور ہم آہنگی کے لیے پرعزم ہے۔

ان کے مطابق:

"مذہبی عقیدے کو ٹھیس پہنچانا کسی بھی طور مناسب نہیں۔ ملک کی سربراہِ حکومت کی جانب سے ایسا بیان آنا افسوسناک ہے۔"

Jr. Seraj Ahmad Quraishi
9

Leave a comment

logo

Follow Us:

Flickr Photos

© Copyright All rights reserved by Bebaak Sahafi 2025. SiteMap